Wednesday 5 December 2012

Hadeesi Hadse 64


دین 

دین دیانت کا مرکز ہے . محمدی الله دیانت داری ہو ہی نہیں سکتا،
اسی طرح قرانی پیغمبر بھی جھوٹ ہے. 
ایک مومن کبھی بھی مسلم نہیں ہو سکتا،
 ٹھیک ویسے ہی جیسے ایک مسلم کبھی مومن نہیں ہو سکتا ،
 کیونکہ وہ اسلام کو تسلیم کے ہوئے ہے. 
لفظ مومن پر اسلام بالجبر قبضہ کئے ہوئے ہے. 


 اسلامی مجرم

الله کے منه کہلائی گئی محمد کی باتیں قران مانی جاتی ہیں اور محمد کا قول فعل حدیثیں کہلاتی .محمد کی زندگی میں ہی حدیثیں اتنی ہو گئی تھیں کہ انکو مسلسل راتوں دن کہنے کے لئے کسی انسان کو سیکڑوں سالوں کی زندگی درکار ہے. کہتے ہیں لگ بھگ چھہ لاکھ حدیثیں شمار کی گئی تھیں. یہودیوں نے حدیثوں کے انبار لگا دے تھے. نتیجہ ے کار  حدیثو پر پابندی لگا دی گئی . خود ابو بکر نے 500 اپنے ہاتھوں لکھی ہی حدیثیں اپنے ہاتھ سے جلائیں .محمد کے موت کے بعد حدیثوں کا حوالہ دینا فرد جرم ہو گیا . اسکا حوالہ دینے والے کو کوڑے کی سزا مقرر ہوئی . دو سو سالوں بعد ایک بڈھے "شریف محمد ابن ابراھیم مغیرہ جافئی بخاری " جنکو عرف عام میں امام بخاری کہا جاتا ہے، نے اور انکے ہم امر دوست نے ایک بار پھر حدیثی شوشہ چھوڑے . امام بخاری کے باپ نے ذرتھرستی مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا . امام بخاری کے بارے میں اسلامی مللوں نے بڑی  مبالغہ آرائی کی ہے جیسے کہ تین لاکھ حدیثیں انھیں یاد تھیں، ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھتے وغیرہ ، مگر لکھنے پر آے تو کل 2155 ہی لکھ سکے.
امام بخاری در اصل پس پردہ اسلام کی دھججیاں اوکھہیڑی ہیں . انہوں نے محمد کی تمام خصلتیں اپنی تحریر میں پرو دیا ہے. ظلم ،زیادتی ، شر، جہالت، جھوٹ ، مکر عیارییاں، دغا بازیاں اور بے ایمانی جو محمد میں چھپی ہوئی  تھیں ، کو چن چن کر حدیثوں میں پرویا ہے. امام بخاری نے کیا ہے ایک عظیم کارنامہ مگر اندھے گونگے اور بھرے مسلمان ان حدیثوں کو قران ثانی مانتے ہیں اور ختم قران کی طرح ہی ختم بخاری شریف بھی اپنی اولادوں کو کرا تے ہیں. تعلیم یافتہ مسلمان بھی حدیثوں کی غلاظت کو سمجتے ہیں. مگر انکو کوئی غرض نہیں کہ جاہلوں کوسمجھیں اور الٹا مار کھا یں
 بخاری لکھتا ہے کہ محمد کے پاس کچھ دیہاتی آ ے اور اپنے پیٹ کی خرابی کی داستان سنائی . محمّد نے انھیں اپنے اونٹوں کے باڑے میں رہ کر اونٹوں کے دودھ اور موت پینے کی صلاح دی . وہ باڑے میں چلے گئے اور کچھ دنوں بعد اونٹوں کے رکھوالے کو قتل کر کے اور سبھی اونٹوں کو لیکر فرار ہو گئے . اسلامی سپاہیوں نے انھیں جا گھیرا اور محمد کی عدالت میں لاے .محمّد نے سزا انکو اس طرح دی کہ پہلے انکے دونوں ہاتھ کٹواۓ ، پھر پھر دونوں ٹانگیں کٹوائیں ، اسکے بعد سبوں کی آنکھوں میں گرم شیشہ پلوایا . وہ نیم لاشیں پانی پانی چللاتے رہے، پانی دینا تو در کنار سبھوں کو غار حرا میں پھکوا   دیا.
(بخاری 170 ، صحیح مسلم کتابل کسامت )
یہ محمد کی رحم دلی کا یں نمونہ تھا .  

جیم. مومن 

No comments:

Post a Comment