Wednesday 10 October 2012

Naya Elan


دین 

دین دیانت کا مرکز ہے . محمدی الله دیانت داری ہو ہی نہیں سکتا،
اسی طرح قرانی پیغمبر بھی جھوٹ ہے. 
ایک مومن کبھی بھی مسلم نہیں ہو سکتا،
 ٹھیک ویسے ہی جیسے ایک مسلم کبھی مومن نہیں ہو سکتا ،
 کیونکہ وہ اسلام کو تسلیم کے ہوئے ہے. 
لفظ مومن پر اسلام بالجبر قبضہ کئے ہوئے ہے. 

جیم. مومن 


نوٹ- سافٹ ویر کی مجبوری کے بائیس تحریر میں ہججے کی غلطیاں ہو سکتی ہے. براہِ کرم تعاون کریں . 

نیا ا علان 

زندگی ایک ہی پائی جو ادُھوری ہے بہت  
اسکو غیروں سے چھڑا لو یہ ضروری ہے بہت 
اسکو جینے کی مکمّل ہمیں آزادی ہو 
اسکو شاداب کریں، اسکی نہ بربادی ہو 
اسپے ویسے بھی معاشوں کی مصیبت ہے بہت 
تن کے کپڑوں کی ،گھر و بار کی قیمت ہے بہت 
اس پہ قدرت کے ستم ڈھونے کی پابندی ہے 
ملکی قانون کی، آئیں کی یہ بندی ہے
بعد ان سب کے یہ جو ساسن بچی ہیں اسکی 
اس پہ مذہب نے لگا رکّھی ہیں موھریں اپنی 
خاص کر مذہبِ اسلام بڑا محلق ہے 
اسکے فرمان غلط اس کا غلط خالق ہے
دین یہ کچھ بھی نہیں ، صرف سیاست ہے یہ
بس کہ عربوں کی غلامی و وراثت ہے یہ
سمجھو قران کو بس تھوڑا جسارت کرکے
ترجمانوں کے زریعے، نہ عقیدت کرکے 
جھوٹ ہے اسمیں جہالت ہے، ریاکاری ہے
بغض ہے، دھوکہ دھڑی ہے نِری عیاری ہے 
غور سے دیکھو حیاتوں کی نظامت ہے کہاں؟ 
اس میں جینے کے آداب و طریقت ہے کہاں؟ 
دھاندھلی کی یہ فقط راہ دکھاتا ہے ہمیں  
غیر قوموں سے قدوورت ہی سکھاتا ہے ہمیں
جاہل و وحشی قریشوں کے عداوت کے سبب
اک قبیلے کا تھا فتنہ جو بنا ہے مذہب 
جنگ کرتا ہے مسلمان جہاں پر ہو سکوں
اسکو مرغوب ہے جنگوں کی غذا، کشت و خون 
سچا انسان مسلمان نہیں ہو سکتا
پکّہ مسلم کبھی انسان نہیں ہو سکتا
صحبت غیر سے یہ کچھ جہاں نزدیک ہوئے
تھوڑے تھوڑے ہوئے انسان، زرہ ٹھیک ہوئے
انکی افغان میں اک کھنہ جھلک باقی ہے
وحشت و جنگ و جنوں آج تلک باقی ہے 
ترکِ اسلام کا پیغام ہے مسلمانو 
ورنہ نا گفتنی انجام ہے مسلمانو 
نہ وہیی اور نہ الہام ہ مسلمانو 
ایک اُمّی کا بُنا دام ہے مسلمانو  
اس سے نکلو کہ بڑے کام ہیں مسلمانو 
شب ہے خطرے کی، ابھی شام ہے مسلمانو  
جس قدر جلد ہو تم اس سے بغاوت کر دو 
باقی انسانو سے تم ترک عداوت کر دو 
تمکو ذلّت سے نکلنے کی راہ دیتا ہوں  
 - - -صاف ستھری ہے، تھیں اک صلاح دیتا ہوں 
,لفظ اک ارتقا ہے سمجھو اسے 
اس میں سب کچھ چھیپا ہے، سمجھو اسے
اسکو پیغمبروں نے سمجھا نہیں
تب یہ نادر خیال تھا ہی نہیں 
ارتقا نام ہے، کچھ کچھ بدلتے رہنے کا. 
اور اسلام ہے محدودیت کو سہنے کا
بہتے رہتے ہیں سبھی ارتقا کی دھاروں میں
یہ نہ ہوتا تو پڑے رہتے ابھی غاروں میں
ہم سفر ارتقا کے ہوں، تو یہ ترققی ہے 
کائناتوں میں نہیں ختم، راز باقی ہیں
ترکِ اسلام کا مطلب نہیں ، کمیونسٹ بنو 
یا کہ پھر ہندو وعیسائی اور بُدہشٹ بنو
صرف انسان بنو ترک ہو اگر مذہب
ایسی جدّت ہو سنورنے کی جسکو دیکھیں سب
دھرم و مذہب ہے اک حاجت، نحیف ذہنوں کو 
زیبہ دیتا ہی نہیں یہ شریف ذہنوں کو 
اس سے آزاد کرو جسم اور دماغوں کو 
دھونا باقی ہے تمہیں بے شمار داغوں کو
سب سے پہلے تمہیں تعلیم کی ضرورت ہے
منطق و سائنس کو تسلیم کی ضرورت ہے 
آلہ قدروں کی کریں آؤ ملکے تییاری
شخصیت میں ہو بسی ایک آلہ معیاری
پھر اسکے بعد ضرورت ہے تندرستی کی 
ہے مشققت ہی فقط ضرب، تنگ دستی کی 
پہلے ہستی کو سنوارن تو بعد میں دھرتی
پایں نصلیں، ہو وراثت میں امن کی بستی 
کُل خدا ہے نہیں، یہ کائنات ہے اپنی 
- -اسی کا تھوڑا سا حصّہ حیات ہے اپنی

******************************************************************************

No comments:

Post a Comment